سورة غافر - آیت 28

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (٢) اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (٣)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ١٠ یعنی میں ہر اس شخص کے مقابلے میں جسے آخرت اور اس کے حساب کتاب کا ڈر نہیں ہے اور اس بناء پر وہ شتر بے مہار بن کر جو دل میں آتا ہے کر گزرتا ہے، اس خدائے بزرگ و برترکی پناہ میں ہوں جو میرا نہیں تمہارا بھی رب ہے اور جس کے سامنے تمہاری اور تمہارے بنائے ہوئے اس رب فرعون کی کوئی حیثیت نہیں ہے وہ جب چاہے تمہیں آن کی آن میں فنا کرسکتا ہے، پھر میں تمہاری اس دھمکی سے مرعوب کیوں ہوں؟ میرے قتل کی سکیم جو تم اپنے پیش نظر رکھتے ہو، اسے ضرور عملی جامہ پہنا کر دم لو۔ ف ١١ یعنی تمہیں ایسے نا قابل انکار معجزے دکھا چکا ہے جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس کا دعویٰ بے دلیل نہیں ہے اور وہ واقعی تمہارے رب۔ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ یہی بات یعنی ( اتقتلون رجلال ان۔۔۔۔) حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے مشرکین مکہ سے اس وقت کہی جب وہ نبی ﷺ کے درپے آزاد تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری (رح) میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مونڈھا پکڑلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں کپڑا ڈال کر پورے زور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گلا گھونٹا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آئے اور عقبہ کو دور دھکیلتے ہوئے فرمایا ( اتقتلون رجلا ان۔۔۔) ابو نعیم (رح) اور بزاز (رح) نے فضائل صحابہ (رض) کے سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے لوگوں سے پوچھا، بتائو سب سے بہادر کون ہے۔۔۔۔۔ آخر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ سب سے بہادر حضرت ابو بکرصدیق (رض) ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے نرغہ سے ایسے وقت میں بچایا جب کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! حضرت ابو بکر (رض) کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی ساری زندگی سے بہتر تھی وہ اپنا ایمان چھپاتا تھا اور ابو بکر (رض) نے اپنے ایمان کا اعلان رکھا تھا۔ ( شوکانی) جو لوگ نعوذ باللہ حضرت صدیق (رض) پر نفاق کی تہمت لگاتے ہیں اور پھرتقیہ کو جزو ایمان سمجھتے ہیں ان کے لئے اس واقعہ میں درس عبرت ہے۔ ( منہ) ف ١ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ آل فرعون کے مومن نے دونوں مراد لئے ہوں کیونکہ ایسی بات وہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے ان کا مومن ہونا صاف طور پر معلوم ہوجاتا۔ ایک یہ کہ اگر واقعی موسیٰ ( علیہ السلام) جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں اتنے معجزے کیوں دیتا دوسرے یہ کہ اگر وہ سچا ہے اور تم اتنے جھوٹے الزام لگا رہے ہو تو تمہاری خیر نہیں ہے اور وہ تمہیں ہرگز کامیابی کی راہ نہ دکھائے گا۔ ( جامع البیان)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس پر جھوٹ بولتا ہے وہی سزا دیگا اور شاید سچا ہو تو اپنا فکر کرو۔ ( موضح)