سورة غافر - آیت 28

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (٢) اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (٣)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 11یعنی تمہیں ایسے نا قابل انکار معجزے دکھا چکا ہے جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس کا دعویٰ بے دلیل نہیں ہے اور وہ واقعی تمہارے رب۔ اللہ تعالیٰ۔ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ یہی بات یعنی İ ‌أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ ........Ĭ حضرت ابو بکر (رض) صدیق نے مشرکین مکہ سے اس وقت کہی جب وہ نبی ﷺ کے درپے آزار تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری (رح) میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مونڈھا پکڑلیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن میں کپڑا ڈال کر پورے زور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گلا گھونٹا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) آئے اور عقبہ کو دور دھکیلتے ہوئے فرمایاİ ‌أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ ........Ĭابو نعیم (رح) اور بزاز (رح) نے فضائل صحابہ (رض) کے سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے لوگوں سے پوچھا، بتائو سب سے بہادر کون ہے.........آخر حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ سب سے بہادر حضرت ابو بکرصدیق (رض) ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے نرغہ سے ایسے وقت میں بچایا جب کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی اور فرمایا کہ اللہ کی قسم ! حضرت ابو بکر (رض) کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن کی ساری زندگی سے بہتر تھی وہ اپنا ایمان چھپاتا تھا اور ابو بکر (رض) نے اپنے ایمان کا اعلان كر رکھا تھا۔ ( شوکانی) جو لوگ نعوذ باللہ حضرت صدیق (رض) پر نفاق کی تہمت لگاتے ہیں اور پھرتقیہ کو جزو ایمان سمجھتے ہیں ان کے لئے اس واقعہ میں درس عبرت ہے۔ ( منہ) ف 1اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ آل فرعون کے مومن نے دونوں مراد لئے ہوں کیونکہ ایسی بات وہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے ان کا مومن ہونا صاف طور پر معلوم ہوجاتا۔ ایک یہ کہ اگر واقعی موسیٰ ( علیہ السلام) جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں اتنے معجزے کیوں دیتا دوسرے یہ کہ اگر وہ سچا ہے اور تم اتنے جھوٹے الزام لگا رہے ہو تو تمہاری خیر نہیں ہے اور وہ تمہیں ہرگز کامیابی کی راہ نہ دکھائے گا۔ ( جامع البیان)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس پر جھوٹ بولتا ہے وہی سزا دیگا اور شاید سچا ہو تو اپنا فکر کرو۔ ( موضح)