وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں (١) اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے (٢) مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے۔ (٣)
ف ٦ گویا اب تک جو وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل کرنے سے رکا ہوا تھا وہ محض اس لئے کہ درباری اسے منع کر رہے تھے یہ بات اس نے محض رعب گانٹھنے کے لئے کہی یا اپنے آپ کو ہمت دلانے کے لئے، حالانکہ اندر سے خدائی طاقت تھی جو اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھی۔ ( فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑو، شاید اس کے ارکان مشورہ نہ دیتے ہونگے مارنے کا اس سے کہ معجزہ دیکھ کر ڈر گئے تھے کہیں اس کا رب بدلہ نہ لے۔ (موضح) ف ٧ جس نے اسے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے دیکھیں وہ مییر ہاتھ سے اسے کیونکر بچاتا ہے؟ ف ٨ یعنی تمہیں اس دین اور اعتقاد کا منکر کر دے جس کے تحت تم مجھے اپنا رب سمجھ کر میری محکمومی و تابعداری پر مطمئن ہو۔ ف ٩ یعنی اگر وہ تمام اہل مصر کو آبائی دین کا منکر نہ کرسکے تو کم از کم یہ خطرہ تو ضرور ہے کہ ان میں سے بعض لوگوں کو توحید کا قائل کرلے اور بعض میری حاکمیت کے قائل رہیں اور پھر آئے دن ملک میں خانہ جنگی کا بازار گرم رہے۔ یہ وہی انداز ہے جسے ہر اقتدار پسند طبقہ یا حکومت پر قابض بادشاہ یا ڈکٹیٹر اہل ملک کے سامنے اندرونی یا بیرونی خطرہ کا ہوا کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا رکھنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔