فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
پس جب ان کے پاس (موسیٰ علیہ السلام) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو (١) اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے (٢)
ف ٤ حق ( سچے دین) سے مراد وہ معجزے ہیں جنہیں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) لے کر آئے تھے اور جو انکی نبوت کے ناقابل تردید ثبوت تھے۔ ف ٥ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا یہ دوسری مرتبہ حکم تھا تاکہ ان کی اکثریت نہ ہو اور ذلیل و خوار رہیں اور اس لئے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو شوم سمجھ کر اس سے بددل ہوجائیں۔ اس آیت کے خاتمہ ” وما کیدا الکفرین الا فی ضلال“ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مہم میں وہ دوبارہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ( ابن کثیر وغیرہ)