رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں (١) یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔
ف 6 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اگرچہ بہشت ہر کسی کو ملتی ہے۔ اپنے عمل سے جو رو، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتا لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کے سبب سے کتنوں کو اعلیٰ درجہ پر پہنچا دے۔ اپنے عمل سے زیادہ اور (شاید) بدلہ ہو اپنے ہی عمل کا وہ عمل یہ کہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اس کی چال چلیں۔ یہ نیت قبول پڑجاوے۔ ( موضح) سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں کہ اہل جنت جب جنت میں چلے جائیں گے تو اپنے عزیزوں کو یاد کرینگے۔ ان سے کہا جائے گا کہ ان کے اعمال تمہاری طرح کے نہ تھے ( اس لئے انہیں کم درجہ میں رکھا گیا ہے۔) وہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے لئے اور ان کے لئے عمل کئے تھے تب انکے عزیزوں کو بھی انکے ساتھ کردیا جائے گا۔ ( ابن کثیر) مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ عزیز ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف ہوں۔ جیساکہ آیت İوَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ Ĭسے واضح ہوتا ہے ( دیکھئے سورۃ طور آیت 21)