وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے (١) مگر جسے اللہ چاہے (٢) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے (٣)
ف ٥ ابن کثیر میں ہے کہ اس سے مراد نفخہ ثانیہ ہے۔ کذافی جامع البیان اور تفسیر فتح البیان میں ہے کہ یہ نفخہ اولیٰ ہے اور جمہور علماء کے نزدیک کل نفخے تین ہیں۔ پہلا نفخہ فزع، دوسرا نفحہ موت اور تیسرا نفخہ بعث ( کذافی الحواشی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ایک بار نفخ صور ہے عالم کی فناکا نہ وسرا ہے زندہ ہونے کا، تیسرا بے ہوشی کا بعد حشر کے، چوتھا خبر دار ہونے کا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوجاویں گے۔ ( موضح) ف ٦” وہ بے ہوش نہ ہوا گے“ بے ہوشی سے مراد موت ہے یا وہ بے ہوشی جو حشر کے بعد ہوگی“۔ (مگر جن کو اللہ چاہے) سے مراد بعض نے مقرب فرشتے لئے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک الموت سب سے آخر میں مرے گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شہداء مراد ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف ٧ یعنی زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ صور پھونکے جانے پر سب سے پہلے میں اپنا سر اٹھائوں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو بے ہوش نہ ہوں گے۔ (شوکانی) صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ” دونوں نفخوں میں چالیس۔۔۔۔۔ ( معدو وغیرہ مذکور) کا فاصلہ ہوگا۔ ( ابن کثیر)۔ بعض ضعیف روایات میں چالیس سال کے الفاظ بھی مذکور ہیں۔ ( دیکھئے فتح الباری، ج، ٢ ص ٣١٩)