وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے (١) وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔ (١)
ف ٣ بعض لوگوں نے اس کو استعارہ قرار دیتے ہوئے آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قیامت کے روز زمین و آسمان سب اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہوں گے۔ لیکن صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ واقعی زمین اور آسمانوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، اس لئے اس آیت کو استعارہ پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور آسمانوں کو دائیں ہاتھ میں لپیٹے گا اور پھر فرمائے گا ” میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں دنیا کے بادشاہ؟“ ایسے ہی الفاظ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں بھی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر خطبہ میں یہ آیت پڑھی اور فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں ہوں جبار، میں ہوں کبریائی کا مالک، میں ہوں عزت کا مالک“۔ یہ کہتے ہوئے آنحضرتﷺ اپنی انگلیوں کو ہلاتے ہوئے انہیں آگے اور پیچھے لے جاتے رہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ منبر لرزنے لگا اور ہمیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گر نہ پڑیں“۔ ( ابن کثیر) یاد رہے کہ آیات صفات کو سلف (رح) نے ان کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے اور تاویل نہیں کی اور کہا ہے کہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ (کتاب التوحید)۔ ف ٤” اس کی ذات ان کے شرک سے ( کہیں) پاک و برتر ہے“۔