قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے (١)
ف ١٠ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بندوں سے خطاب کر کے کہہ دیجئے۔ واضح رہے کہ تمام لوگ مسلمان ہوں یا کافر، انبیاء ( علیہ السلام) و الیاء ہوں یا فرشتے سب اللہ کے بندے ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بھی متعدد آیات میں بندہ کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔ ف ١١ یعنی کفر و شرک اور گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیا۔ یہاں اسراف میں اور گناہوں کے علاوہ کفر و شرک بھی داخل ہے۔ ف ١٢ یہ رحمت مقید بہ توبہ ہے کیونکہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ ہم اتنے گناہ کرچکے ہیں اب ہماری بخشش کیونکر ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو اس کی رحمت بڑی وسیع ہے اور ہر انسان کے سامنے توبہ کا دارومدار کھلا ہے۔ ف ١٣ یعنی توبہ کرو گے تو وہ ہر قسم کے گناہ چاہے وہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں معاف فرما دے گا حتیٰ کہ توبہ سے تو شرک جیسا گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ توبہ کے بغیر سب ہی گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ( ان اللہ لا یغفر) الخ ( نساء : ٤٨) میں بیان ہوچکا ہے۔ بہر کیف اس آیت میں گناہ گاروں کو توبہ کی دعوت دی ہے اور اس پر غفران ذنوب ( بشمول شرک) کی خبر دی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے بعض لوگوں نے شرک کی حالت میں بڑے پیمانے پر قتل اور زنا کا ارتکاب کیا تھا وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ ہے تو ٹھیک، لیکن یہ بتایئے کہ ہماری بد اعمالیاں بھی معاف ہو سکتی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اور سورۃ فرقان کی آیت ( والذین لا یدعون۔۔۔۔۔) الخ نازل فرمائی۔ (ابن کثیر)