وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے، پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا اسے (بالکل بھول جاتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے جس سے (اوروں کو بھی) اس کی راہ سے بہکائے، آپ کہہ دیجئے! کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن اور اٹھالو، (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔
ف ١ یعنی خدا کو بھول جاتا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس کے دفع کرنے کے لئے وہ اس نعمت کے ملنے سے پہلے خدا کو پکارتا تھا“۔ ف ٢ یعنی اللہ کی راہ ( اسلام و توحید) سے وہ نہ صرف خود گمراہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ بہت سے جھوٹے معبودوں اور پیروں فقیروں کو خدا کے برابر قرار دے کر ان سے جھوٹی کرامتیں منسوب کرتا ہے اور لوگوں میں ان کا چرچا کرتا پھرتا ہے۔