سورة ص - آیت 44

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر مار دے اور قسم کا خلاف نہ کر (١) سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ١ اس آیت کی تاویل میں مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ایوب ( علیہ السلام) نے ہماری کی حالت میں کسی وجہ سے اپنی بیوی پر ناراض ہو کریہ قسم کھالی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی تو میں اسے سو کوڑے لگائوں گا۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت یاب کیا اور بیماری کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہیں پریشانی لا حق ہوئی کہ قسم کیسے پوری ہو ؟ چنانچہ اس مشکل سے اللہ تعالیٰ انہیں طرح نکالا کہ ” سو تنکوں کی ایک جھاڑو لو اور اس سے اپنی بیوی پر ایک ہی ضرب لگا دو“۔ اس طرح قسم پوری ہوجائے گی اور بیوی بھی ناروا تکلف سے بچ جائے گی۔ اس رعایت کو حضرت ابن عباس (رض) اور بعض ائمہ (رح) ( جیسے امام مالک (رح) حضرت ایوب ( علیہ السلام) کے لئے خاص قرار دیا ہے اور بعض ائمہ ( جیسے امام ابو حنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قسم کھا لے کہ فلاں شخص کو سو کوڑے یا چھڑیاں ماروں گا اور یہ نہ کہے کہ سخت ماروں گا یا دل سے اس کا ارادہ نہ کرے تو اس کے لئے اس رعایت سے فائدہ اٹھاناجائز ہے۔ ( شوکانی) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بوڑھے اور کمزور مجرموں پر حد جاری کرنے میں نبیﷺ نے خود اسی طریقہ پر عمل فرمایا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے حیلہ شرعی کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اگر یہ استدلال درست بھی ہو تب بھی اس سے وہ حیلہ جائز قرار نہیں پاتا جو کسی حرم کو حلال یا حلال کو حرام کرنے یا کسی شرعی فریضہ سے بچنے کے لئے کیا جائے۔ اگر کسی حیلہ کا جواز نکلتا ہے تو صرف اس اس کا جسے کسی گناہ یا ظلم سے بچنے کے لئے اختیار کیا جائے۔ ( روح المعانی)