قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں (١)، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں (٢) اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا۔
ف ٢ ممکن ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) نے یہ فیصلہ دوسرے فریق کا بیان سنے بغیر صادر کردیاہو اور یہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کا قصور تھا جسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ ف ٣ اس مقام پر سجدہ کرنا پڑھنے اور سننے والے دونوں کے لئے مستحب ہے۔ ابن عباس (رض) سے ایک روایت میں ہے کہ سورۃ ص کا سجدہ با عزیمت سجدوں یعنی ان سجدوں میں سے نہیں ہے جن کی تاکید آئی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ص میں سجدہ کیا اور فرمایا :” دائود ( علیہ السلام) نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)