وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ
اور لوگوں نے تو اللہ کے اور جنات کے درمیان بھی قرابت داری ٹھہرائی (١) ہے، اور حالانکہ خود جنات کو معلوم ہے کہ وہ (اس عقیدے کے لوگ عذاب کے سامنے) پیش کئے جائیں گے (٢)
ف ٢ لغوی طور پر ” جن“ سے مراد ہر وہ مخلوق ہے جو پوشیدہ ہو اور نظر نہ آئے، اس لئے اکثر مفسرین (رح) نے اس آیت میں جنوں سے مراد فرشتے لئے ہیں۔ بعض مفسرین (رح) نے ان سے مراد اصطلاحی جن ہی لئے ہیں کیونکہ جیسا کہ یہ حضرات کہتے ہیں عربوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے ایک قبیلہ میں شادی کی اور اس سے فرشتے پیدا ہوئے، اوالعیاذ باللہ ( شوکانی) یا ” نسا“ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شیطان کو شریک بنا لیا۔ ( قرطبی) ف ٣ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ جہاں جنوں مراد فرشتے ہیں اور اگر اصطلاحی جن ہی مراد لئے جائیں تو اس فقرہ کا یہ مطلب ہوگا کہ ” جنوں کو خوب علم ہے کہ وہ ( یعنی جوان میں سے کافر ہیں) عذاب میں پکڑے آئیں گے “۔