فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا
پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی۔
ف 9” صافات‘‘ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو آسمان میں ادائے عبادت یا فضا میں اللہ تعالیٰ کے نزول حکم کے انتظار میں صف بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ فرشتوں کی صف بندی شرف و فضلیت میں درجات کے تفاوت کے اعتبار سے ہے۔ یعنی ہر ایک کے لئے جود رجہ مقرر ہے اسی پر قائم رہتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ ( دیکھئے سورۃ نباء : 38 و سورۃ فجر : 22) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں فر شتوں کی سی صف بندی کا حکم دیا ہے یعنی پہلی صف پوری ہونے کے بعد دوسری صف باندھی جائے اور صف میں مل کر کھڑا ہوجائے اور حدیث میں ہے کہ نماز میں فرشتوں کی طرف صف بندی کرنا اس امت کا خاصہ ہے۔ (وَجُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ) (مسلم، ابو دائود) اور زَجْرًاسے مرادیہ ہے کہ وہ بادل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں یا لوگوں کو گناہوں سے باز رکھتے اور شیاطین کواستراق سمع سے ڈانٹتے ہیں۔ حاصل یہ کہ ”زَاجِرَاتِ “ سے مراد بھی فرشتے ہیں مگر بعض نے وہ نمازی مراد لئے ہیں جو میدان جنگ میں گھوڑوں کو ڈانٹ کر کافروں پر حملہ کرتے ہیں اور ذِكْرًا سے مراد اکثر مفسرین (رح) نے قرآن لیا ہے اور تلاوت کرنے والوں سے فرشتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : فرشتے کھڑے ہوتے ہیں قطار ہو کر سننے کو اللہ کا حکم پھر جھڑکتے ہیں شیطانوں کو جو سننے کو جا لگتے ہیں پھر جب اتر چکا اس کو پڑھتے ہیں ایک دوسرے کو بتانے کو۔ ( موضح)۔