سورة يس - آیت 13

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے (١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٢ اس بستی سے مراد کونسی بستی ہے اور وہ پیغمبر کون تھے جو اس بستی کی طرف بھیجے گئے تھے؟ اس کی قرآن یا کسی صحیح حدیث میں تصریح نہیں ہے۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق گر قدیم مفسرین (رح) بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہرانطاکیہ ہے اور جن پیغمبروں کا ذکر کیا گیا ہے حضرت عیسیٰ کے حواری تھے جنہیں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے تبلیغ کے لئے وہاں بھیجا تھا۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح میں یہی لکھا ہے مگر یہ توضیح بچندوجوہ صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اول یہ ہے کہ قرآن نے ان پیغمبروں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی تصریح کی ہے اور پھر اگر وہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواری ہوتے تو بستی والے ان پر یہ اعتراض نہ کرتے کہ تم ہماری طرح کے بشر ہو اور اللہ تعالیٰ نے کوئی کتاب نہیں اتاری بلکہ ان کے مابین سوال و جواب کا طریقہ کوئی اور ہوتا جس سے پتہ چلتا کہ وہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف سے بھیجے ہوئے حواری تھے۔ دوسرے یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ انطاکیہ اور اسکندریہ ان شہروں میں ہیں جن کے تمام باشندے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر سب سے پہلے ایمان لائے اس لئے انطاکیہ عیسائیوں کے چار بڑے مراکز میں سے ایک مرکز رہا ہے۔ تیسرے جیسا کہ آگے آرہا ہے قرآن کی تصریح کے مطابق یہ بستی تباہ کردی گئی حالانکہ انطاکیہ والوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریوں کا قصہ توراۃ کے نازل ہونے کے بعد پیش آیا اور حضرت ابو سعید خدری (رض) اور دیگر صحابہ کہتے ہیں کہ توراۃ نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی بستی کو عام عذاب بھیج کر تباہ نہیں کیا۔ مستدرک حاکم کی ایک مرفوع روایت سے بھی ثابت ہے جسے حاکم نے صحیح کہا ہے ( دیکھئے سورۂ قصص ٤٣) اور یہ جو آیا ہے کہ حضرت علی (رض) کا اس امت میں وہی مرتبہ ہے جو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی امت میں اس شخص کا ہے جس کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے تو یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی سند میں حسین بن حسن الاشقرراوی ہے جو غالی شیعہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن نے جس بستی کا ذکر کیا ہے اس سے مراد انطاکیہ نہیں بلکہ اور کوئی بستی ہے جو تباہ کردی گئی اور یہ واقعہ نزول توراۃ سے قبل کا ہے ممکن ہے اس نام کی اس سے پہلے بھی کوئی بستی ہو۔ ( احسن الفوائد بن کثیر وغیرہ)