مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب و حکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہوجاؤ (١) تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔
ف 1 توراۃ وانجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ ( علیہ السلام) کی الوہیت کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان سے اپنی الوہیت کا دعویٰ محال ہے۔ (کبیر) تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائی اور مدینہ کے چند یہود علما آنحضرت (ﷺ )کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت (ﷺ) نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی’’ بُنُوَّۃ‘‘ (خدا کا بیٹا ہونے) کا رد کیا اور ان مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ اس پر ایک یہودی عالم ابو رافع القرضی کہنے لگا اے محمد( ﷺ) کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ( ﷺ) کی عبادت کرنے لگیں۔ نبی( ﷺ) نے فرمایا :معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے او نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ایضا کبیر) پھر جب نبی اس کا مجاز نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور ائمہ اس مرتبہ پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں۔ انبیا کی بحیثیت نبی ہونے کی اتباع واجب ہوتی ہے مشائخ اور ائمہ تو واجب الا تباع بھی نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر بتصرف، شوکانی) اَلْرَبَّانِی۔ رب پر الف نون بڑھا کر یا نسبت لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرو فرماتے ہیں کہ یہ رَبَّہ یَرُ بَّہ فھو رَبَّانٌ ہے۔ یعنی صیغہ صفت رَبَّانٌ کے ساتھ یا نسبت ملحق ہے۔ (فتح البیان) بِمَا كُنتُمۡمیں با برائے سببیت ہے یعنی چونکہ تم تعلیم ودراست کا مشغلہ رکھتے ہو اس لیے تمہیں عالم باعمل اور خدا پرست بننا چاہئے (بضاوی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں : ہاں تم کو ( اے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگر دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھا نا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ فائدہ: کسی شخص میں اگر علم اورکتب الہٰیہ کی دراست سے خد اپرستی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ تضییع اوقات ہے اور آنحضرت( ﷺ) نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے ایك دعا میں هے (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ) ( اے للہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو غیر نافع ہو) (رازی۔ فتح البیان )