وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا
اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہونگے (١) پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے (٢) تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا۔
ف ٥ جس کی طرف اللہ نے کبھی اپنا کوئی پیغمبر بھیجا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” عرب کے لوگ جو سنتے یہود کی بے حکیماں اپنے نبی سے تو کہتے۔ ہم میں اگر نبی آوے تو ہم ان سے بہتر رفاقت کریں۔ سو منکروں نے اور عداوت کی “۔ اکثر مفسرین (رح) نے آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے۔ اور ( سورۂ صفافات : ١٣٧، ١٦٩) سے بھی اس کی تائید وضاحت ہوئی ہے۔ فرمایا (وان کانو لیقولون لو ان عندنا ذکرا من الاولین لکنا عباد اللہ الخلصین) اور یہ قرآن اترنے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر پچھلوں کی کوئی کتاب ہمارے پاس ہوتی تو ہم اللہ کے برگزیدہ بندے ہوجاتے۔ مگر امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ تو رسالت اور حشر کے قائل ہی نہیں تھے۔ پھر ان کے اس قول کی یہ تفسیر کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل اس قول سے ان کا مقصد مبالغہ کے ساتھ رسالت محمدﷺ کی تکذیب کرنا ہے۔ یعنی اگر اللہ کی طرف سے واقعۃً کوئی پیغمبر آتاتو ہم اس پر ایمان لے آتے مگر یہ محمدﷺ تو پیغمبر نہیں ہیں بلکہ نعوذ باللہ کا ذب اور مفتری ہیں ( کبیر)