سورة آل عمران - آیت 73

وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو (١) آپ کہہ دیجئے کہ بیشک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (٢) (اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا بھی یقین نہ کرو) کہ کوئی اس جیسا دیا جائے جیسے تم دیئے گئے ہو (٣) یا یہ کہ تم سے تمہارے رب کے پاس جھگڑا کریں گے، آپ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے اسے دے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 یہ بھی ان طائفوں کا کلام ہے جن کا اوپر سے ذکر چلا آرہا ہے اور اس سے ان کا مذہبی تعصب اور حسد ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبعین کو تاکید کرتے رہتے ہیں الخ ۔مترجم (رح) كی توضیحات سے آیت کو جو مفہوم ظاہر ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جملہ أَن يُؤۡتَىٰ اور أَوۡ يُحَآجُّوكُمۡکا تعلق لَا تُؤۡمِنُوٓاْسے ہے ای لِئَلَّا يُؤْتَى اولِئَلَّا يُحَاجُّوكُمْ مگر امام طبری (رح) نے ایک دوسری توجیہ اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ دونوں جملےلَا تُؤۡمِنُوٓاْکے تحت ہیں اور معنی یہ ہیں کہ اپنے هم مشرب کے سوا کسی کی بات پر یقین نہ کرو نہ یہ تسلیم کرو کہ تمہاری طرح کسی کو علم وفضل ملا ہے اور نہ یہ مانو کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے بایں صورتİقُلۡ إِنَّ ٱلۡهُدَىٰالخ Ĭجملہ معتر ضہ هوگا اوراس کا ربطİقُلۡ إِنَّ ٱلۡفَضۡلَ بِيَدِ ٱللَّهِĬکے ساتھ ہوگا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) یہاں تک ان کی خیانت دینی اور مذہبی تعصب کا بیان تھا۔ اب اگلی آیت میں ان کی خیانت مالی اور مسلمانوں سے بغض کا بیان ہے۔ (کبیر )