وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
کفار کہتے ہیں ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔ آپ کہہ دیجئے! مجھے میرے رب کی قسم! جو عالم الغیب ہے وہ یقیناً تم پر آئے گی (١) اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیدہ نہیں (٢) نہ آسمانوں میں نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کھلی کتاب میں موجود ہے (٣)۔
ف 9 یعنی اخروی نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ حمد و ستائش کے مستحق ہیں مگر کچھ لوگ هیں کہ اخروی نعمت کے منکر ہیں اور قیامت جس کے بعد آخرت میں نعمتیں حاصل ہونگی اس کا انکار کر رہے ہیں۔ ( کبیر)۔ ف 10 یہ آیت ان تینوں آیتوں میں سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ دوسری آیت سورۃ یونس میں ہے İ وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ Ĭالایۃ۔ اور تیسری آیت سورۃ تغابن میں ہے۔İ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا Ĭ الایۃ۔ ف1 یہ قیامت کے وقوع پر دلیل ہے یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لئے وہ تمہارے منتشر اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور الصادق الامین نے اس کی خبر دی ہے۔ لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ( کبیر)۔