يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا
اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم بنی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا (١) جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو (٢) تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے (٣) اور نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو (٤) اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (٥)
ف ٣ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کے ولیمہ پر لوگوں کو دعوت دی۔ جب کھانا کھاچکے تو بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھنے کے لیے تیار ہوئے مگر کچھ لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر چلے گئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ تین شخص ابھی تک بیٹھے باتوں میں مشغول ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لے گئے۔ آخر جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب (رض) کے ہاں تشریف لائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( شوکانی)۔ ف ٤ اس آیت کو آیت حجاب ( پردہ کی آیت) کہا جاتا ہے۔ یہ پردہ کا مسئلہ اس آیت میں دوسرا مسئلہ ہے۔ روایات صحیحہ میں ہے کہ آیت حجاب کا نزول بھی منجملہ ان باتوں کے ہے جن میں حضرت عمر (رض) نے اپنے رب کی موافقت پائی ہے۔ صحیحین میں مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ۔۔۔۔ بہتر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ازواج (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) پردہ کا حکم فرمائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ ذوالقعدہ ٥ ھ کو حضرت زینب (رض) کی شب زفاف کی صبح کو نازل ہوئی لہٰذا اصل سبب نزول حضرت زینب (رض) کا واقعہ ہے۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت کی ازواج (رض) کے گھر پر پردے لٹکا دیئے گئے۔ (ابن کثیر) مطلب یہ کہ حضرت کے ازواج کسی مرد کے سامنے نہ جاویں سب مسلمانوں کی عورتوں پر یہ حکم واجب نہیں اگر عورت کسی مرد کے سامنے ہو اور اس کا پورا جسم مستورہو تو گناہ نہیں، لیکن بہتریہ ہے کہ اس حالت میں بھی سامنے نہ ہو۔ ( موضح)۔ ف ٥ کیونکہ ودنیا و آخرت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اور تمہاری مائیں ہیں جیسا کہ آغاز سورۃ میں گزر چکا ہے، مگر یہ حکم ان ازواج کا ہے جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلاق دے کر الگ نہیں کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں رہیں۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حرم ہیں جن سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے۔ (قرطبی)۔