يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی! ہم نے تیرے لئے وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے (١) اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں (٢) اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خلاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے (٣) اور وہ باایمان عورتیں جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے (٤) یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں (٥) ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں ( ٦ ) یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو (٧) اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے۔
ف 3 مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہیں جو آیت کے نزول کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں تھیں۔ ف 4 اس اجازت کے تحت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیہ (رض)، جویرہ (رض) اور ماریہ قبطیہ (رض) اور ریحانہ (رض) کو اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا۔ صفیہ (رض) اور جویرہ (رض) سے نکاح کرلیا اور باقی دو سے (ایک روایت کے مطابق) محض ملک یمین کی بناء پر تمتع فرماتے رہے۔ ( فائدہ) وفات کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نو بیویاں تھیں۔ عائشہ (رض)، حفصہ (رض)، سودہ (رض)، ام سلمہ (رض)، زینب (رض)، ام حبیبہ (رض)، جویرہ (رض)، صفیہ (رض) اور میمونہ (رض)۔ ان میں سے پچھلی تین قریشی نہیں۔ (موضح)۔ ف 5 اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لونڈیاں لڑائی میں گرفتار ہو کر نہ آئیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مباح نہیں ہیں بلکہ ” سراری“ کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے عام اجازت ہے۔ ( قرطبی)۔ ف 6 یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح وہ بھی ہجرت کرچکی ہوں۔ ( قرطبی) یاد رہے کہ رشتوں کی حرمت کے بارے میں شریعت اسلامیہ نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ عیسائیوں کے ہاں افراط ہے اور کسی ایسی عورت سے نکاح جائز نہیں جس سے سات پشتوں تک مرد کا نسب ملتا ہو اور یہود کے ہاں تفریط ہے اور سگی بھانجی اور بھتیجی سے بھی نکاح جائز سمجھتے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ ف 7 یعنی یہ اجازت صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے اور مسلمانوں کے لئے وہی حکم ہے :İأَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ Ĭ بن مہر نکاح نہیں۔ ( موضح)۔ ف 8 یعنی عام مسلمانوں کو نکاح کے لئے جن شرائط کا پابند کیا گیا ہے ان کا پابند رہنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ مہر ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسائل سورۃ نساء آیت 3، 4 نیز 24، 25 میں گزر چکے ہیں۔ ( ابن کثیر)