يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے مومنوں جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (١) پس تم کچھ نہ کچھ انھیں دے دو (٢) پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو (٣)۔
ف ١٠ اس سے معلوم ہوا کہ اصل میں لفظ ” نکاح‘ بمعنی عقد ہے اور جماع کے معنی میں بطور استعارہ آتا ہے۔ ( مفرادت) اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح سے قبل کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شخص کہہ دیتا ہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے پھر اس کے بعد نکاح کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یہی مسلک جمہور اہل علم ہے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١ لہٰذا وہ طلاق کے فوراً بعد کسی مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس پر جمیع صحابہ (رض) اور بعد کے اہل علم کا اجماع ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس نے تا حال اپنی عورت سے صحبت نہ کی ہو تو عورت پورے مہر کی بھی حقدارہو گی اور اسے چار ماہ دس دن کی عدت بھی پوری کرنی ہوگی۔ یہ بھی اجماعی مسئلہ ہے۔ بعض اہل علم نے خلوت صحیحہ کو بھی بمنزلہ صحبت کے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد طلاق دینے سے مہر اور عدت لازم ہوگی۔ مگر یہ مسئلہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) ف ٢ یعنی اگر مہر کا تعین نہ ہوا ہو تو اپنی مالی حیثیت کے مطابق کچھ دے کر اسے بہتر طریقہ سے رخصت کرو۔ (بقرہ : ٢٣٦) لیکن اگر مہر کا تعین ہوچکا ہو تو پھر قبل از سیس طلاق کی صورت میں نصف مہر دینا لازم ہوگا۔ ( بقرہ : ٢٣٧) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ مسئلہ ذکر فرمایا ازواج کے ذکر میں شاید اس واسطے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت کی تھی۔ جب اس کے نزدیک گئے کہنے لگی ” اللہ تجھ سے پناہ دے“۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسکو جواب دیا۔” تو نے بڑے کی پناہ پکڑی“۔ اس پر یہ حکم صادر فرمایا اور خطاب فرمایا ایمان والوں کو معلوم ہو کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حکم خاص نہیں سب مسلمانوں پر یہی حکم ہے“۔ روایات میں ہے کہ وہ بد بخت ساری عمر ندامت اور حسرت کرتی رہی۔