وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (١) یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
ف ٢ کہ چاہے اس پر عمل کرے اور چاہے نہ کرے بلکہ ہر حال میں عمل کرنا ضروری ہے۔ ( دیکھئے قصص : ٦٨) ف ٣ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی شان نزول میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) بن حارثہ کے لئے حضرت زینب (رض) بن حجش کو پیغام نکاح دیا۔ مگر حضرت زینب (رض) نے اپنی شان کے خلاف سمجھ کر اس نکاح سے انکار کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) سے فرمایا :” بلی فانکحیہ“ ( کیوں نہیں، تم ان سے ضرور نکاح کرو) اس پر حضرت زینب (رض) نے کہا : ” اچھا میں اس پر غور کروں گی“ یہ گفتگو جاری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت زینب (رض) نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے یہ فیصلہ منظور ہے۔ آیت کی شان نزول گو خاص ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور متعدد آیات و احادیث میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف چلنے پر وعید آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے پیغام کے تابع نہ ہوجائے ( ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کسی مجتہد کی رائے پر عمل کرنا نہیں چاہئے بلکہ جونہی آیت یا حدیث ملے کسی مجتہد کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ (فتح البیان)۔