وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کرلی تھی انھیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو۔
ف ٣ یہ غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر ہے۔ ہوا یہ کہ قریش اور غطفان تو واپس چلے گئے اور بنو قریظہ اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ نبیﷺ خندق سے پلٹ کر گھر پہنچ گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل آئے اور کہنے لگے :” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھیار رکھ دیئے مگر فرشتوں نے تا حال ہتھیار نہیں رکھے، بنی قریظہ کی طرف چلئے ان پر حملہ کیجئے“۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کا حکم دے دیا اور بنو قریظہ کا محاصرہ کرلیا گیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک جاری رہا آخر بنو قریظہ تنگ آگئے اور انہوں نے مصالحت کی گفتگو شروع کی۔ آخر کار انہوں نے حضرت سعد (رض) بن معاذکو حکم تسلیم کرلیا جو قبل از اسلام ان کے حلیف رہ چکے تھے۔ چنانچہ حضرت سعد (رض) کو لایا گیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : بنو قریظہ کے بارے میں اپنا فیصلہ دیجئے۔ سعد (رض) نے کہا میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے مقابلہ لڑائی کرنے والے قتل کردیئے جائیں اور عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ قتل ہونے والوں کی تعداد چھ سو سے نو سو تک بیان کی گئی ہے اور تقریباً یہی اندازہ قیدیوں کے متعلق مذکور ہے (شوکانی)۔