سورة الأحزاب - آیت 9

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اے ایمان والوں! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا (١) اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہانڈیا الٹ دیں اور انہیں اس قدر بے بس کردیا کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجاہد (رح) سے منقول ہے کہ وہ ریح ” صبا“ تھی۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ” نُصِرْتُ ‌بِالصَّبَا “ کے الفاظ ہیں یعنی شرقی ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف 5 یہ غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے کا ذکر ہے جو صحیح اور مشہور روایات کے مطابق شوال 5 ھ میں واقع ہوا۔ اس کی مختصر روادیہ ہے کہ 4 ھ میں نبیﷺ نے مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ کی سر زمین سے جلا وطن کردیا تھا اس کے کچھ اشراف ( سر کردہ لوگ) مکہ گئے اور سرداران قریش سے ملاقات کر کے انہیں نبیﷺ اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم مدینہ پر حملہ کرو تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور ہر طریقہ سے تمہاری مدد کریں گے جب قریش نے آمادگی کا اظہار کیا تو وہ نجد کے قبائل غطفان اور ہذیل وغیرہ کی طرف گئے اور انہیں بھی مدینہ پر حملے کے لئے اکسایا اور ہر ممکن طریقہ سے امداد کرنے کا وعدہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ 5 ھ میں ایک طرف ابو سفیان کی سر کردگی میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر اور دوسری طرف غطفان، ہذیل اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر عیینہ بن حصن کی سر کردگی میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے پہنچ گئے اور جنوب اور مشرق سے مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ شمال کی طرف سے بنو نضیر اور بنو قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینہ سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر اور وادی القریٰ میں آباد ہوگئے تھے۔ مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالات کا اندازہ کر کے حضرت سلمان (رض) فارسی کے مشورہ سے مدینہ کی ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ پیچھے یعنی مغرب کی سمت قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی آباد تھے۔ ان سے مسلمانوں کا حلیفانہ معاہدہ تھا اس لئے مسلمان ان کی طرف سے بے فکر تھے بلکہ انہوں نے اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھیج دیئے تھے جو ان کی جانب تھیں لیکن بنی نضیر کا سردار حُیی بن اخطب ان کے پاس پہنچا اور انہیں حالات کی سازگاری کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے بد عہدی پر آمادہ کرلیا۔ اس طرح گویا مدینہ منورہ ہر طرف سے مشرکوں اور یہودیوں کے نرغہ میں آگیا۔ ان آیات میں انہی نازک حالات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان و انعام بیان کیا ہے۔ ( ابن کثیر)۔