مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ
کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انھیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں (٢) بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا (٣) یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں (٤) اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے (٥) اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔
ف 3 کہ ” ایک دل میں ایمان و اخلاص ہو اور دوسرے میں کفر و نقاق“ کفر و اسلام اور ایمان و نفاق بیک وقت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ صاحب ” و جیز“ لکھتے ہیں ” جب اللہ تعالیٰ نے حضرت کو توجہ الی اللہ اور توکل کا حکم دیا اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت سے منع کیا تو آگاہ فرمایا کہ آدمی کے دو دل نہیں جو ایک اللہ کی طرف متوجہ کرے اور ایک غیر کی طرف، بلکہ دل ایک ہے سو اللہ تعالیٰ کی طرف لگانا چاہیے۔ ( حاشیہ جامع البیان)۔ ف 4 یعنی جس طرح ایک سینہ میں دو دل نہیں ہو سکتے اور نہ بیوی” ظہار“ کرنے یعنی ” أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي “ کہہ دینے سے اس کی حقیقی ماں بن جاتی ہے، اسی طرح کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا کیونکہ کسی آدمی کے دو باپ نہیں ہو سکتے (ظہار کے لیے دیکھئے سورۃ مجادلہ آیت2) زمانہ جاہلیت میں اگر ایک شخص کسی دوسرے کے لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو وراثت و حرمت وغیرہ احکام میں وہ حقیقی بیٹا تصور ہوتا۔ آنحضرتﷺ نے بھی قبل از نبوت عام عادت کے مطابق اپنے آزاد کردہ غلام زید (رض) بن حارثہ کو اپنا بیٹا بنایا تھا اور لوگ اسے زید (رض) بن محمد (ﷺ) کہہ کر پکارتے تھے۔ آگے آرہا ہے کہ جب انہوں نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دی اور نبی ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا تو منافقوں نے بڑا شورمچایا کہ محمدﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور متبنّی بنانے کی رسم کو لغو قرار دے دیا۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی ایسی کہنے کی باتیں بہتیری ہیں ان پر عمل نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ ان باتوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔