فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
ف 1 جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں اظہار حق اور دلائل کے کے باوجود وفد نجران نے عناد کی راہ اختیار کی تو آخری فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان سے مباہلہ کا حکم دی اجس کی صورت یہ تجویز ہوئی (جیسا کہ آیت میں مذکور ہے) کہ فریقین اپنی جان اور اولاد کے ساتھ ایک جگہ حاضر ہوں ارجو فریق چھوٹا ہے نہایت عجزوانکسار کے ساتھ اس کے حق میں بد دعا کریں کہ اس پر خدا کی لعنت ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ مباہلہ کے لیے حضرت فا طمہ (رض)، امام حسن (رض)، امام حسین (رض) اور حضرت علی (رض) کو لے کر نکل آئے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ خلفائے اربعہ اور ان کی اولاد بھی ساتھ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر نصارےٰ نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہم ان سے ملا عنہ نہ کریں۔ خدا کی قسم اگر یہ اللہ کے نبی ہوئے اور اس کے باوجود ہم نے ملا عنہ کرلیا توس ہما ری اور ہماری اولاد کی خیر نہیں ہوگی، چنانچہ انہوں نے آنحضرت سے عرض کی آپ ﷺ جو چاہتے ہیں ہم آپﷺ کو دیں گے۔ لہذا آُپﷺہمارے ساتھ کوئی امانتدار آدمی بھیج دیجئے۔ نبی ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور فرمایا : ھذا آمین ھذہ الا متہ۔ کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔، یہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اس آیت سے علما نے استدلال کیا ہے کہ معاند عن الحق سے مباہلہ ہوسکتا ہے۔