اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کردیا پھر عرش پر قائم ہوا (١) تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں (٢) کیا اس پر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے (٣)۔
ف 10 ” چھ دنوں“ سے مراد دنیا کے چھ دن نہیں بلکہ چھ ادوار ہیں یا آخرت کے چھ دن (دیکھیے سورۃ احراف آیت 74) ف ١ یعنی ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے۔ بہت سی احادیث اور آثار و اقوال سے بھی اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ثابت ہے۔ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ سلف کا اس پر اجماع ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثہ میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور تمام مخلوق سے الگ ہے اور اپنی ذات سے آسمانوں اور تمام جہاں کے اوپر ہے۔ الغرض سارے اہل شریعت اور عقلا اسی عقیدہ پر متفق چلے آتے ہیں، صرف معتزلہ نے اس صف کی نفی کی ہے، پھر متاخرین اشاعرہ ان کے تابع ہوئے۔ از حاشیہ جامع البیان ( نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٩، سورۃ اعراف آیت ٥٤ و طہٰ آیت ٥)۔ ف ٢ یعنی اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی نہیں جو تمہاری مدد کرکے تمہیں اس سے چھڑاسکے یا خود اس کے اذن کے بغیر اس سے تمہاری سفارش کرسکے۔