وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہو (١) تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔
ف 7 اور ظاہر ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کی سند نہیں ہو سکتی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” شریک نہ مان جو تجھے معلوم نہیں یعنی شبہ میں بھی نہ مان اور یقین سمجھ کر تو کیا مانے۔“ ف 8 کیونکہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔ (دیکھیے عنکبوت آیت 8) ف 9 یعنی ان کے مشرک ہونے کے باوجود دنیا کے عام معاملات میں ان سے شفقت، محبت اخلاق اور تواضع کا برتائو کر۔ ف 10 یعنی میری توحید کا قائل ہے اور پورے اخلاص سے میری اطاعت و بندگی کر رہا ہے۔ دین کے معاملہ میں ماں باپ کی تقلید جائز نہیں ہے۔