وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں (١) کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں (٢) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (٣)۔
ف 1 حسن بصری فرماتے ہیں لھو الحدیث (واہی باتوں) سے مراد وہ تمام فضول اور بے ہودہ باتیں ہیں جو آدمی کو اپنے میں مشغول کر کے نیکی اور بھلائی کے راستہ سے روک دیں جیسے جھوٹے افسانے ناول قصے کہانیاں ہنسی مذاق گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں فالاضافۃ بمعنی من البیانیۃ او التبعیضیۃ بنائو علی مذھب اب کیسان بمعنی الام علی مذھب اکثر الماخرین وھو الاصح (کذافی لووح) اکثر صحابہ و تابعین نے اس کی تفسیر خاص طور پر ” گانا بجانا“ سے کی ہے۔ (قرطبی) حضرت عبداللہ بن معسود سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں ” لہو الحدیث“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا :” الغنآء واللہ الذی لا الہ الا ھو“ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس سے مراد گانا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے اور اس کے سازوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو عجمیوں (یارانیوں) کے قصے کہانیاں خرید کر لایا تھا (شوکانی) واحدی نے کلبی اور مجاہد سے بھی اس آیت کی شان نزول یہی نقل کی ہے حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نضربن حارث نے گانے بجانے والی دو لونڈیاں بھی خرید کر رکھی تھیں جس کو دیکھتا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو رہا ہے اس پر اپنی کوئی لونڈی مسلط کردیتا۔ وہ اسے اپنے گانے بجانے سے خوب مست رکھتی اور پھر وہ اس شخص سے کہتا کہ جس نماز روزہ کی طرف محمد (ﷺ) دعوت دیتے ہیں وہ بہتر ہے یا یہ گانا بجانا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علما نے لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ ان سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہو قال الالوسی وارمحسن تفسیرہ بمایعم ذالک او حضرت ابن عباس کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے جو کہ الادب المفرد بخاری اور سنن بہیقی میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں ” ھو العاء واشباھہ یعنی ” لھو الحدیث سے موسیقی اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں اور یہاں اشترا خریدنے سے مراد قرآن کی بجائے اس سے لذت و سرور حاصل کرنا ہے۔ الغرض متعدد آثار و اقوال سلف میں گانے کی مذمت مذکور ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے گانے گانے والے اور اس کے سننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور آپ نے فرمایا ہے گانا انسان کے دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس پات اگتا ہے۔ ” تاتار خانیہ“ میں مذکور ہے کہ ’ دگانا تمام مذاہب میں حرام ہے۔“ امام مالک سے سماع کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا : یہ تو ہمارے دور کے فاسق وفاجر لوگوں کا کام ہے اور ابن الصلاح نے تو مسماع کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے خصوصاً وہ سماع جو فی زمائنا صوفیہ کرام نے ایجاد کر رکھا ہے اور اسے اذکار و عبادات میں داخل کرلیا ہے۔ اس کے حرام ہونے کے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ سلف ہمیشہ ان باتوں سے دور رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے روحی المعانی) دور میں جس چیز کو ہم نے فنون لطیفہ کے نام سے اسلامی تمدن کا جز قرار دے رکھا ہے اسی کے متعلق قرآن نے ’ دضلالت عن سبیل اللہ ہونے کا اعلان کیا تھا فوا اسفا علی مافرطنا 12