وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں ان کے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہنچے تو ایک دم وہ محض ناامید ہوجاتے ہیں (١)
ف 5 یعنی آخر شرک کی دلیل کیا ہے؟ کیا انکی عقل یہی کہتی ہے یا ہماری کسی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ تمہارے فلاں بزرگ کو ہم نے اپنے اختیارات میں شریک کرلیا ہے لہٰذا تم انہیں بھی اپنی حاجت روائی کے لئے پکار سکتے ہو؟ ف 6 یعنی ہم ہار بیٹھتے ہیں کہ اب کوئی نہیں جو ہماری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہوجاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے بہت سے کمزور ایمان ولاوں کا بھی یہی حال ہے مگر مومن کا حال اس کے برعکس ہے۔ اسے جب عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : مومن کی ہر حالت پر تعجب ہے اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ خیر کا موجب ہے جب اے عیش و آرام نصیب ہوتا ہے تو شکر کرت اہے۔ یہ بھی اس کے حق میں خیر ہے۔ اگر رنج و تکلیف پہنچتی تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لئے بہتری اور ثواب ہے۔ (ابن کثیر قرطی)