فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)
ف 8 فطرۃ کے معنی تو پیدا کرنا ہوتے ہیں مگر یہاں فطرۃ اللہ سے مراد دین اسلام یا توحید ہے جو خلقی اور جبلی طور پر ہر انسان ان کے قلب میں ودیعت کی گی ہے اور اگر انسان کو اس کی طبعی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور بیرونی اثرات اور دبائو سے اس کے دل و دماغ کو محفوظ رکھا جائے تو وہ توحید اور دنی فطرت ہی اختیار کرے گا۔ ایک حدیث میں بھی آنحضرت نے فرمایا : مامن مولود الایولد علی الفطرۃ کہ ہر بچہ فطرت پیدا ہوتا ہے اور ’ دزرکول“ کے وقت اخذ عہد والی آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (دیکھیے اعراف آیت 172) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ (دیکھیے اطراف آیت 172) ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا پھر شیاطین نے آ کر انہیں ان کے دین سے برگشتہ کردیا ” اور خلقت ھولاء للنار اور اس مضمون کی دوسری روایات اس کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ ان روایات کو عملا نے خاتمہ اور مآل پر محمول کیا ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی ابن کثیر) ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جانوروں کی جو صورتیں بنائی ہیں ان میں تبدیلی نہ کرو۔ گویا جاہلیت میں جو جانوروں کے کان کاٹنے اور بلا ضرورت فول کو خصی کرنے کا رواج تھا اس کی ممانعت فرمائی ہے (قرطبی) ف 10 شاہ صاحب آیت کی توضیح میں لکھتے ہیں :” یعنی اللہ سب کا حاکم و مالک، سب سے نرالا کوئی اس کے برابر کا نہیں یہ باتیں سب جانتے ہیں اس پر چلنا چاہئے ایسے ہی کسی کے جان مال کو ستانا ناموس میں عیب لگانا ہر کوئی برا جانتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا ہر کوئی اچھا جانتا ہے اس پر چلنا وہی دین سچا ہے۔ ان چیزوں کا بندوبست پیغمبروں کی زبان سے اللہ نے سکھایا۔ (موضح) ف 11 اس لئے فطرۃ کے خلاف شرک و بدعت کی جو باتیں انہوں نے اپنے باپ دادا یا دوسروں سے سیکھ لی لی ہیں انہی پر اندھا دھند چلے جاتے ہیں۔