وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَد تَّبَيَّنَ لَكُم مِّن مَّسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ
اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں (١) اور شیطان نے انھیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انھیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے (٢)۔
6۔ شام کے راستے میں خیبر و تیما سے تبوک تک قوم ثمود کے آثار پائے جاتے ہیں اور قوم عاد کے آثار جزیرۂ عرب کے جنوبی علاقہ میں، جو احقاف اور حضرموت کے نام سے مشہور ہے، پائے جاتے ہیں۔ اب اگر یہ آثار مٹ چکے ہوں تو نزول قرآن کے زمانہ میں تو ضرور پائے جاتے ہوں گے اور عرب کا بچہ بچہ ان سے واقف ہوگا۔7۔ یعنی جاہل اور بدھو قسم کے لوگ نہ تھے۔ بڑے ہنر مند اور ترقی یافتہ تھے اور اپنے دنیوی معاملات بڑی ہوشیاری اور زیرکی سے سرانجام دیتے تھے مگر شیطان نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا تھا اس لئے وہ دین کی سچی راہ نہ پا سکے۔