سورة البقرة - آیت 26

إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔ (١) ایمان والے تو اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے ذریعے بیشتر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ (٢) اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مدعا کو واضح کرنے کے کے لیے مکڑی اور مکھی وغیرہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں اور ابتدا میں منافقین کی حالت سمجھانے کے لیے ان کے متعلق مثالیں بیان کی ہیں۔ کفار اور منافقین اعتراض کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن کتاب الہی ہوتی تو اس قسم کے حقیر جانور وغیرہ کی مثالیں بیان نہ ہوتیں ان آیات میں انہی کے اعتراض کا جواب دیا ہے عھد اللہ سے مراد وہ وصیت بھی ہو سکتی ہے جو انبیاء کی زبانی آسمانی کتابوں میں اپنے اوا مر ونواہی بجا لانے کے لیے کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تورات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا نے کا جو عہد اہل کتاب سے لایا گیا ہے وہ مراد ہو۔