سورة العنكبوت - آیت 29

أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لئے آتے ہو (١) اور راستے بند کرتے ہو (٢) اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو (٣) اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا بس (٤) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

5۔ یعنی فحش اور بدکاری کے کام چھپ کر ہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا، ایک دوسرے کے سامنے، کرتے ہو۔ اسی کو سورۃ نمل میں یوں فرمایا : اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون۔ کیا تم اسی طرح بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو کہ آنکھوں سے (اسے ہوتا) دیکھ رہے ہوتے ہو“؟ (آیت 54) 6۔ سورۃ اعراف میں ہے : فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اخرجوھم من قربتکم۔ پھر ان کی قوم والوں نے کوئی جواب (ان باتوں کا) نہ دیا۔ یہی کہنے لگے کہ انہیں اپنی بستی سے نکال دو۔ (کذافی سورۃ نمل) اور یہاں ان کا جواب یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو عذاب لے آئو۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے تو حضرت لوط ( علیہ السلام) کے سمجھانے پر انہوں نے بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی ہو اور پھر تنگ آ کر عذاب کا مطالبہ کردیا ہو۔ یا ممکن ہے ترتیب اس کے برعکس ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی)