وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور جو کچھ تجھے اللہ تعالیٰ نے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ (١) اور اپنے دنیاوی حصے کو نہ بھول جا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر (٣) اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو (٤) یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔
2۔ یعنی دنیا میں آخرت کے لئے نیک کام کرتا وہ کیونکہ دنیا میں انسان کا حصہ اس کی عمر اور نیک عمل ہی ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ دنیا میں حلال رزق سے متمتع ہونے اور حلال روزی طلب کرنے کا حصہ ضائع نہ کر اور دنیا کے انجام پر غور کرتا رہ جیسے حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : اخرت لدناک کانک تعیش ابدا و اعمل لاخرتک کانک لموت غدا (کذا فی القرطبی)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” حصہ موافق کھا پہن اور زیادہ مال سے آخرت کما۔“ (موضح) 3۔ یہاں ” احسان“ کے معنی ہیں ” خلوص سے اللہ کی عبادت کرنا“۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احسان کے بارے میں دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان تعبد اللہ کا…“ کہ تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ بعض نے یہاں ” احسن“ کے معنی ” بندوں کے ساتھ احسان کرنا“ لئے ہیں۔ بہرحال ” احسان کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں۔ سب کا جامع مفہوم یہ ہے کہ ” اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو طاعت الٰہی میں صرف کرنا۔“ (قرطبی۔ شوکانی) 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی معصیت کے کام نہ کرو۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں سب سے بڑا دہند (فساد مچانا) اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” خرابی نہ ڈال یعنی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی ضد نہ کر“۔ (موضح)۔