وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
فرعون کہنے لگا اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا۔ سن اے ہامان! تو میرے لئے مٹی کو آگ سے پکوا (١) پھر میرے لئے ایک محل تعمیر کر تو میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں (٢) اسے میں جھوٹوں میں سے ہی گمان کر رہا ہوں۔ (٣)
4۔ شاہ صاحب (رح) نے یہاں ” إِلَهِ “ (خدا) کا ترجمہ ” حاکم“ کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماکا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا بلکہ وہ خود بہت سے دیوتائوں کی پرستش کرتا تھا۔ (سورہ اعراف :127) پس فرعون کا مطلب یہ ہے کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں۔ میرے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوسکتا جس کی فرمانبرداری کی جائے۔ف 5۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرا خدا آسمان پر ہے فرعون نے جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا، ہر دور میں خدا کے منکر ایسی باتیں کہتے آئے ہیں۔