وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ
مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے (١) اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے جانوروں کو روکتی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے (٢) وہ بولیں کہ جب تک یہ چروا ہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں (٣) اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں (٤)
2۔ مدین خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا۔ آج کل ” اَلْبِدَع“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پر وہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یا مغارات شعیب کہا جاتا ہے۔ اس جگہ ثمودی طرز کی بعض عمارتیں بھی پائی جاتی ہیں اور اس سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کچھ قدیم کھنڈر واقع ہیں جہاں دو اندھے کنوئیں ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک کنواں وہ تھا جس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے بکریوں کو پانی پلایا تھا۔ بعض اصحاب کا یہ بیان ہے اور بعض قدیم معجمات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ ف3۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ پانی پینے کے لئے لوگوں کی بکریوں میں گھس جائیں اور پھر گم ہوجائیں۔ ف4۔ اور ہجوم چھٹ نہ جائے، اس وقت بچا بچایا پانی اپنی بکریوں کو پلا لیتی ہیں۔ (قرطبی) ف5۔ یعنی اس میں اتنی طاقت نہیں کہ خود بکریوں کے ساتھ آئے اور ڈول نکال کر انہیں پانی پلا سکے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے اس لئے مجبوراً ہمیں یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ قرآن یا حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ ان کے والد کون تھے اور ان کا نام کیا تھا۔ اکثر مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں اور بعض نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بھتیجیاں بھی کہا ہے لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے اور سیاق قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ (شوکانی)