قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے لا دے (١)
ف6۔ کہتے ہیں کہ جب ایلچی پیغام لے کر بلقیس کے پاس واپس پہنچا اور اس نے اس سے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا آنکھوں دیکھا سب حال بیان کیا تو وہ سمجھ گئی کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ چنانچہ اس نے اطاعت قبول کی اور تابعداروں کی طرح اپنے لائو لشکر سمیت بیت المقدس کی طرف روانہ ہوگئی۔ ادھر جب حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کی روانگی کی خبر ملی تو وہ نہایت خوش ہوئے۔ (ابن کثیر) اس وقت انہوں نے اپنے درباریوں سے کہا…“ ف7۔ تاکہ جب وہ یہاں پہنچ کر اپنے تخت کو موجود پائے تو اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو کیسی غیر معمولی قوتیں عطا فرماتا ہے اور اسے یقین آجائے کہ میں واقعی اللہ کا نبی ہوں“…بعض مفسرین نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے ملکہ کا تخت منگوانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس کے تخت پر قبضہ کرلینا چاہتے تھے کیونکہ جب وہ پہنچ کر اسلام قبول کرلے گی تو اس کے مال پر قبضہ کرنا جائز نہ رہے گا۔ (شوکانی) لیکن ایک نبی کی شان کو دیکھتے ہوئے تخت منگوانے کی یہ وجہ قرار دینا مناسب نہیں۔