قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں (١) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ف 4 یہود اس غلط فہمی مبتلا تھے کہ حکم و نبوت کایہ سلسلہ ہمیشہ ان میں رہے گا۔ دوسری قوم اس کا استحقاق نہیں رکھتی مگر جب نبی آخرالزمان (ﷺ)جب ایک ا مّی قوم بنی اسمٰعیل سے مبعوث ہوگئے تو ان کے غیظ وغضب اور حسد کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی کودو کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود مختار اور مالک الملک ہے۔ وہ جس قوم کو چاہتا ہے دنیا میں عزت و سلطنت سے نوازدیتا ہے۔ لہذا نبوت جو بہت بڑی عزت ہے اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا پسند فرما لیا ۔اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یہاں دعا کے انداز میں مسلمانوں کو بشارت بھی دے دی کہ تمہیں اس دنیا میں غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور آنحضرت خاتم الا نبیا (ﷺ) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے ْ لہذا تمہیں چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ