وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
اور داؤد کے وارث سلیمان ہوئے (١) اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے (٢) اور ہم سب کچھ میں سے دیئے گئے ہیں (٣) بیشک یہ بالکل کھلا ہوا فضل الٰہی ہے۔
9۔ اس سے مراد مال و جائیداد کی وراثت نہیں بلکہ علم و فضل اور نبوت کی وراثت ہے۔ اگر مال و جائیداد کی وراثت ہوتی تو وارث کے طور پر صرف حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا ذکر نہ ہوتا کیونکہ اس میں تو حضرت دائود ( علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے بھی شریک ہوتے۔ نیز اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو حضرت سلیمان کے قول :” یا ایھا الناس الخ“ کا ذکر بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ (کبیر) اور یوں بھی انبیا علیہم السلام کے بارے میں نبیﷺ کا ارشاد واضح ہے کہ ان کے مال اور ان کی جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہیں ہوتی : ” نحن معاشر الانبیا لا نورث ما ترکناہ صدقۃ“۔ پس آیت میں وراثت کا لفظ ایسا ہی ہے جیسا کہ فرمایا :” العلماء ورثۃ الانبیاء کہ علما انبیا کے وارث ہیں۔ جمہور مفسرین (رح) نے یہی تفسیر کی ہے۔ (قرطبی، شوکانی) 10۔ ” یعنی اس کا سمجھنا سکھایا گیا“ صرف پرندوں کی نہیں بلکہ تمام حیوانات کی۔ پرند کا ذکر محض اس لئے ہے کہ وہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لشکر میں شریک تھے اور ان کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ (شوکانی) پرندوں کی بولی کی کیا حقیقت ہے اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اس کے متعلق کس قسم کا علم دیا گیا تھا؟ گو اس کی تفصیل مذکور نہیں مگر اتنی بات یقینی ہے کہ ان کا یہ علم تخمینی طریقہ کا نہ تھا جو اس عصر کے ماہرین علم الحیوانات نے ایجاد کیا ہے بلکہ اس میں اعجازی شان نمایاں تھی اور خاص عطائے الٰہی تھی جس سے ان کو نوازا گیا تھا۔11۔ جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس میں علم و نبوت، حکمت اور مال حتیٰ کہ جنوں، انسانوں، پرندوں، حیوانات اور ہوا وغیرہ کی تسخیر سبھی چیزیں شامل ہیں۔ (شوکانی)