قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں، ایک جماعت تو اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دو گنا دیکھتے تھے (١) اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔
ف 2 یعنی متذکرہ بالا پیش گوئی کے مبنی پر صداقت ہونے کے لیے معرکہ بدر میں بہت بڑی آیت (دلیل موجود ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) یرو نھم مثلھم صیغہ غائب یا کے ساتھ پڑ ھا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مسلمان کفار کو اپنے سے صرف دو چند دیکھ رہے تھے حالانکہ وہ سہ چند تھے تاکہ مسلمانوں کو ثبات حاصل ہو چنانچہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ دوم یہ کہ کفار مسلمانوں کے اپنے سے دو چند دیکھ رہے تھے حالا نکہ ان کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور مسلمان کل 313 مگر مسلمان دوچند اس لیے نظر آتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیج دیئے تھے۔ اکثر مفسرین نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اور ترونھم پڑھیں تو معنی اور بن سکتے ہیں۔ (شوکانی) واضح رہے کہ دوچند دکھلا نا لڑائی سے قبل تھا ورنہ لڑائی کے وقت تو ہر گروہ دوسروں کو اپنے سے کم خیال کر رہا تھا۔ دیکھئے سورت برات آیت 130 (وحیدی )