وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
رحمان کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر مصلحت کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے (١)۔
10۔ یعنی اگرچہ پیدائشی طور پر سبھی خدائے رحمن کے بندے ہیں۔ لیکن اس کے نیک اور پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر اس کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ہیں چنانچہ وہ جب زمین پر چلتے ہیں تو عاجزی سے چلتے ہیں نہ کہ مفسدوں اور جباروں کی طرح اینٹھتے اور اکڑتے ہوئے۔ عاجزی کی چال سے مراد سکون اور وقار کی چال ہے نہ کہ تصنع اور ریا سے مریضوں کی طرح سے چلنا۔ آنحضرتﷺ صحابہ (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے : وعلیکم السکینۃ۔ یعنی تم اس طرح آئو کہ تم پر سکون و وقار کی حالت طاری ہو۔ (قرطبی، ابن کثیر) 1۔ یہ سلام وہ نہیں جو مسلمان بطور دعا اور اظہار محبت کے ایک دوسرے کو کرتے ہیں بلکہ یہ بیزاری اور ترک ملاقات کا سلام ہے جیسے اگر کسی سے پیچھا چھڑانا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے ” اچھا بھئی، سلام“۔ مجاہد وغیرہ نے ” قالوا سلاما“ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہ جاہلوں کی جہالت کے مقابلے میں اچھی اور سلامتی کی بات کہتے ہیں۔ ( اور درگزر کرتے ہیں) تاکہ فساد نہ بڑھے۔ (شوکانی)