وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
اور بیشک ہم نے اسے ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا تاکہ (١) وہ نصیحت حاصل کریں، مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے سوائے ناشکری کے مانا نہیں۔ (٢)
ف13۔ یعنی بارش کہیں زیادہ ہوتی ہے اور کہیں کم۔ سب جگہ یکساں ہو۔ بیک وقت نہیں ہوتی۔ کسی جگہ بارش سے سیلاب آجاتا ہے اور کہیں بارش نہ ہونے سے خشک سالی ہوجاتی ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت کے کرشمے ہیں۔ (ابن کثیر) آیت کا یہ ترجمہ اور مفہوم اس صورت میں ہوگا جب ” صَرَّفْنَاهُ “ میں ” ہ“ کی ضمیر بارش کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ ضمیر اوپر بیان شدہ دلائل کے لئے قرار دی جائے۔ کما ھو عند جھور المفسرین تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہم نے توحید کے دلائل کو مختلف طریقوں سے پھیر پھیر کر قرآن اور دیگر کتب سماویہ میں بیان کیا ہے۔ (شوکانی) ف14۔ ناشکری یہ کہ اس بارش کو ستاروں کا کرشمہ قرار دیا جائے۔ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث کے دوران میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ کہتے ہیں کہ ” مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا “ کہ فلاں ستارے کی تاثیر سے بارش ہوئی وہ لوگ مجھ سے کفر کرتے ہیں اور ستارو پر ایمان رکھتے ہیں۔ (ابن کثیر)