وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو (١) ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے۔ (٢) اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپا لے وہ گناہ گار دل والا ہے (٣) اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے،
ف 1 یہ بیع کی ایک دوسرے شکل ہے۔ یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے ولا یا ادوات تحریر میسر نہ ہوں تو تحریر کی بجائے مدیون کو چاہیے کہ صاحب دین کے پاس کوئی چیز رہن کرھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ چیز زیادہ ترسفر میں پیش آسکتی ہے ورنہ رہن حضرت میں بھی جائز ہے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ ایک یہو دی کے پاس گروی رکھ کر عملا اس کی وضاحت کردو،) صحیحین) پس سفر میں تورہن کی نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں آنحضرت کے فعل سے۔ (شوکانی) یعنی قرضدار لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو سے بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کردے۔ حدیث میں ہے : علی الید ما اخذت حتی تؤ دیہ۔ کہ ہاتھ نے جو کچھ لیا ہے اس کے ذمہ ہے جب تک کہ ادا نے کردے۔ (ابن کثیر) ف 3 اس میں اثم (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے اور اسکے دواعی اولادل ہی ہوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وعید ہے کہ کتمان شہادت اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے دل مسخ ہوجاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذلک (شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا اور اسی طرح گواہی کو چھپا نا کبیرہ گناہ ہے۔ (ابن کثیر) سعیش بن مسیب اور ابن شہاب کا قول ہے کہ آیت ریا اور آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ (شوکانی )