يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گناہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی (١) اور کہیں گے یہ محروم ہی محروم کئے گئے (٢)
4۔ بعض نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ جیسا کہ بعد کی آیت : وقدمنا الی ما عملوا سے معلوم ہوتا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے ان کی موت کا دن مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز دیکھئے انفال 50 و انعام 93 (ابن کثیر) 5۔ یا یہ کلمہ مجرمین خود کہیں گے (یعنی خدا کی پناہ) یعنی فرشتوں سے ڈر کر پناہ مانگیں گے۔ یہ محاورہ (حجراً محجوراً) عرب عموماً اس وقت استعمال کرتے جب کوئی سخت آفت ان پر آ پڑتی۔ جیسے ہم ایسے موقع پر کہتے ہیں ” یا اللہ بچائیو“۔ قاضی شوکانی نے اسی مطلب کو ترجیح دی ہے مگر حافظ ابن کثیر (رح) نے پہلے مطلب کو اختیار کیا ہے (ابن کثیر۔ شوکانی)