سورة النور - آیت 63

لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انھیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں (١) سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف7۔ یعنی معمولی نہ سمجھو کہ جی چاہا آگئے اور جی میں آیا تو نہ آئے بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلاویں۔ پھر یہ بھی تھا کہ بے حکم چلے نہ جاویں۔ یا آیت کے معنی یہ ہیں کہ : ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو عام لوگوں کی سی دعا نہ سمجھو“۔ یا ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے نہ پکارو جیسے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں“ یعنی آواز دھیمی رکھ کر نہایت ادب و احترام سے پکارو۔“ ” دُعَاءَ الرَّسُولِ “ کے یہ تینوں معنی مفسرین نے بیان کئے ہیں اور تینوں موقع و محل کے لحاظ سے صحیح ہے۔ (شکانی) ف8۔ یہ منافقین کا شیوہ تھا جیسا کہ متعدد روایات میں اس کا ذکر ہے۔ ف 9۔ آیت میں لفظ ” فتنہ“ کو غیر مقید رکھا گیا ہے۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قتل۔ بعض نے زلزلہ اور بعض نے ظالم حکمرانوں کا تسلط لیا ہے اور ” يُخَالِفُونَ “ چونکہ معنی اعراض کو متضمن ہے اس لئے اس کا صلہ عن لایا گیا ہے۔ (شوکانی) ف1۔ یہاں لفظ ’ او‘ منع الخلو کے لئے ہے۔ پھر جب صرف ایک معاملہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملہ پر ضرور غور کرنا چاہئے جنہوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بے نیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔