وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انھیں کردیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انھیں بھی دو، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انھیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انھیں مجبور کر دے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔
6۔ مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے کہتا ہے، اگر تم اتنا مال اتنی قسطوں میں ادا کر دو گے تو میں تمہیں آزاد کر دونگا۔7۔ یعنی اپنی زکوٰۃ و صدقات سے ان کی مدد کرو تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔8۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر لونڈیاں خود پاکدامن نہ رہنا چاہیں تو ان سے حرام کاری کرائی جاسکتی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی سے حرامکاری کریں گی تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی اور وہ خود مجرم ہوں گی، لیکن اگر مالک ان سے زبردستی حرامکاری کرائے گا تو اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی مجرم ان کا مالک ہوگا۔ خود ان پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی سیکہ اور امیہ نامی دو لونڈیاں تھیں جن سے وہ زبردستی حرامکاری کراتا تھا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر)