الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں (١) ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی (٢)
7۔ اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیثوں (گندوں) کا نبھائو گندی عورتوں سے اور پاکیزہ لوگوں کا نبھائو پاکیزہ حاصل عورتوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مردخود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھائو کرتا چلا جائے۔ مقصود حضرت عائشہ (رض) کی نزاہت ہے کہ اگر ان میں خباثت کا ادنیٰ سا شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبیﷺ جو ازل سے ابد تک پاکوں کے سردار تھے ان سے نہایت محبت و اطمیان سے برسوں نبھائو کرتے چلے جاتے؟ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے خبیثات سے گندے اقوال و افعال اور طیبات سے پاکیزہ اقوال و افعال بھی مراد لئے ہیں یعنی جیسا کوئی آدمی خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت عائشہ (رض) پاک تھیں ان کی سیرت بھی پاک تھی اور یہ منافق خود بھی گندے تھے اس لئے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ (ابن کثیر) 1۔ یہاں تک وہ آیات مکمل ہوگئیں جو حضرت عائشہ (رض) کی تہمت زنا سے برأت کے سلسلہ میں نازل کی گئی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خوشخبری دی تو میری والدہ نے مجھ سے کہا : اٹھو، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو“ میں نے کہا :“ میں نہ ان کا شکریہ ادا کرونگی اور نہ اپنے ماں باپ کا، بلکہ میں تو اللہ ہی کا شکر ادا کرونگی جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ (رض) مزید فرماتی ہیں :” یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائیگی میں اپنی ہستی کو اس سے کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میری برأت میں کلام کرے۔ (بخاری، مسلم)