وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو (١) اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دو گنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
ف 5 یہ ریاکاروں کے مقابلہ میں مخلص مومنوں کی دوسری مثال ہے یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ (کبیر) ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو اگر اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش ہو تو ہلکی بارش ہی کا فی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے وہ کسی صورت بھی ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور طل (اوس) سے مراد تھوڑا مال۔ سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے۔ اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھا وابھی زیادہ ہے جیسے پتھر پردانہ، جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر دے کہ مٹی دو ھوئی جائے (موضح)