وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آثار پہچان لیتے ہیں۔ وہ قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں، (٢) کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بدتر خبر دوں۔ وہ آگ ہے، جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے، (٣) اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے
6۔ یعنی غصہ سے ایسی شکل بناتے ہیں گویا ابھی کاٹ کھائیں گے۔ قاضی شوکانی (رح) لکھتے ہیں : ” یہی کیفیت اہل بدعت کی ہوتی ہے جب انہیں قرآن کی کوئی ایسی آیت یا نبیﷺ کی کوئی ایسی صحیح حدیث سنائی جاتی ہے جو ان کے باطل عقائد کی تردید کرتی ہو۔ (فتح القدیر) 7۔ یعنی کلام الٰہی کی آیات سن کر تم میں غصہ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے یا ان آیات کے سنانے والوں کے ساتھ جو برے سے برا سلوک تم کرسکتے ہو کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز نہ بتائوں جس سے تمہیں سابقہ پڑنے والا ہے؟ (شوکانی)